← Mark 5/16 → |
پھر وہ جھیل کے پار گراسا کے علاقے میں پہنچے۔ | .1 |
جب عیسیٰ کشتی سے اُترا تو ایک آدمی جو ناپاک روح کی گرفت میں تھا قبروں میں سے نکل کر عیسیٰ کو ملا۔ | .2 |
یہ آدمی قبروں میں رہتا اور اِس نوبت تک پہنچ گیا تھا کہ کوئی بھی اُسے باندھ نہ سکتا تھا، چاہے اُسے زنجیروں سے بھی باندھا جاتا۔ | .3 |
اُسے بہت دفعہ بیڑیوں اور زنجیروں سے باندھا گیا تھا، لیکن جب بھی ایسا ہوا تو اُس نے زنجیروں کو توڑ کر بیڑیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ کوئی بھی اُسے کنٹرول نہیں کر سکتا تھا۔ | .4 |
دن رات وہ چیخیں مار مار کر قبروں اور پہاڑی علاقے میں گھومتا پھرتا اور اپنے آپ کو پتھروں سے زخمی کر لیتا تھا۔ | .5 |
عیسیٰ کو دُور سے دیکھ کر وہ دوڑا اور اُس کے سامنے منہ کے بل گرا۔ | .6 |
وہ زور سے چیخا، ”اے عیسیٰ اللہ تعالیٰ کے فرزند، میرا آپ کے ساتھ کیا واسطہ ہے؟ اللہ کے نام میں آپ کو قَسم دیتا ہوں کہ مجھے عذاب میں نہ ڈالیں۔“ | .7 |
کیونکہ عیسیٰ نے اُسے کہا تھا، ”اے ناپاک روح، آدمی میں سے نکل جا!“ | .8 |
پھر عیسیٰ نے پوچھا، ”تیرا نام کیا ہے؟“ اُس نے جواب دیا، ”لشکر، کیونکہ ہم بہت سے ہیں۔“ | .9 |
اور وہ بار بار منت کرتا رہا کہ عیسیٰ اُنہیں اِس علاقے سے نہ نکالے۔ | .10 |
اُس وقت قریب کی پہاڑی پر سؤروں کا بڑا غول چر رہا تھا۔ | .11 |
بدروحوں نے عیسیٰ سے التماس کی، ”ہمیں سؤروں میں بھیج دیں، ہمیں اُن میں داخل ہونے دیں۔“ | .12 |
اُس نے اُنہیں اجازت دی تو بدروحیں اُس آدمی میں سے نکل کر سؤروں میں جا گھسیں۔ اِس پر پورے غول کے تقریباً 2,000 سؤر بھاگ بھاگ کر پہاڑی کی ڈھلان پر سے اُترے اور جھیل میں جھپٹ کر ڈوب مرے۔ | .13 |
یہ دیکھ کر سؤروں کے گلہ بان بھاگ گئے۔ اُنہوں نے شہر اور دیہات میں اِس بات کا چرچا کیا تو لوگ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کیا ہوا ہے اپنی جگہوں سے نکل کر عیسیٰ کے پاس آئے۔ | .14 |
اُس کے پاس پہنچے تو وہ آدمی ملا جس میں پہلے بدروحوں کا لشکر تھا۔ اب وہ کپڑے پہنے وہاں بیٹھا تھا اور اُس کی ذہنی حالت ٹھیک تھی۔ یہ دیکھ کر وہ ڈر گئے۔ | .15 |
جنہوں نے سب کچھ دیکھا تھا اُنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ بدروح گرفتہ آدمی اور سؤروں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ | .16 |
پھر لوگ عیسیٰ کی منت کرنے لگے کہ وہ اُن کے علاقے سے چلا جائے۔ | .17 |
عیسیٰ کشتی پر سوار ہونے لگا تو بدروحوں سے آزاد کئے گئے آدمی نے اُس سے التماس کی، ”مجھے بھی اپنے ساتھ جانے دیں۔“ | .18 |
لیکن عیسیٰ نے اُسے ساتھ جانے نہ دیا بلکہ کہا، ”اپنے گھر واپس چلا جا اور اپنے عزیزوں کو سب کچھ بتا جو رب نے تیرے لئے کیا ہے، کہ اُس نے تجھ پر کتنا رحم کیا ہے۔“ | .19 |
چنانچہ آدمی چلا گیا اور دکپلس کے علاقے میں لوگوں کو بتانے لگا کہ عیسیٰ نے میرے لئے کیا کچھ کیا ہے۔ اور سب حیرت زدہ ہوئے۔ | .20 |
عیسیٰ نے کشتی میں بیٹھے جھیل کو دوبارہ پار کیا۔ جب دوسرے کنارے پہنچا تو ایک ہجوم اُس کے گرد جمع ہو گیا۔ وہ ابھی جھیل کے پاس ہی تھا | .21 |
کہ مقامی عبادت خانے کا ایک راہنما اُس کے پاس آیا۔ اُس کا نام یائیر تھا۔ عیسیٰ کو دیکھ کر وہ اُس کے پاؤں میں گر گیا | .22 |
اور بہت منت کرنے لگا، ”میری چھوٹی بیٹی مرنے والی ہے، براہِ کرم آ کر اُس پر اپنے ہاتھ رکھیں تاکہ وہ شفا پا کر زندہ رہے۔“ | .23 |
چنانچہ عیسیٰ اُس کے ساتھ چل پڑا۔ ایک بڑی بھیڑ اُس کے پیچھے لگ گئی اور لوگ اُسے گھیر کر ہر طرف سے دبانے لگے۔ | .24 |
ہجوم میں ایک عورت تھی جو بارہ سال سے خون بہنے کے مرض سے رِہائی نہ پا سکی تھی۔ | .25 |
بہت ڈاکٹروں سے اپنا علاج کروا کروا کر اُسے کئی طرح کی مصیبت جھیلنی پڑی تھی اور اِتنے میں اُس کے تمام پیسے بھی خرچ ہو گئے تھے۔ توبھی کوئی فائدہ نہ ہوا تھا بلکہ اُس کی حالت مزید خراب ہوتی گئی۔ | .26 |
عیسیٰ کے بارے میں سن کر وہ بھیڑ میں شامل ہو گئی تھی۔ اب پیچھے سے آ کر اُس نے اُس کے لباس کو چھوا، | .27 |
کیونکہ اُس نے سوچا، ”اگر مَیں صرف اُس کے لباس کو ہی چھو لوں تو مَیں شفا پا لوں گی۔“ | .28 |
خون بہنا فوراً بند ہو گیا اور اُس نے اپنے جسم میں محسوس کیا کہ مجھے اِس اذیت ناک حالت سے رِہائی مل گئی ہے۔ | .29 |
لیکن اُسی لمحے عیسیٰ کو خود محسوس ہوا کہ مجھ میں سے توانائی نکلی ہے۔ اُس نے مُڑ کر پوچھا، ”کس نے میرے کپڑوں کو چھوا ہے؟“ | .30 |
اُس کے شاگردوں نے جواب دیا، ”آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ ہجوم آپ کو گھیر کر دبا رہا ہے۔ تو پھر آپ کس طرح پوچھ سکتے ہیں کہ کس نے مجھے چھوا؟“ | .31 |
لیکن عیسیٰ اپنے چاروں طرف دیکھتا رہا کہ کس نے یہ کیا ہے۔ | .32 |
اِس پر وہ عورت یہ جان کر کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے خوف کے مارے لرزتی ہوئی اُس کے پاس آئی۔ وہ اُس کے سامنے گر پڑی اور اُسے پوری حقیقت کھول کر بیان کی۔ | .33 |
عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”بیٹی، تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے۔ سلامتی سے جا اور اپنی اذیت ناک حالت سے بچی رہ۔“ | .34 |
عیسیٰ نے یہ بات ابھی ختم نہیں کی تھی کہ عبادت خانے کے راہنما یائیر کے گھر کی طرف سے کچھ لوگ پہنچے اور کہا، ”آپ کی بیٹی فوت ہو چکی ہے، اب اُستاد کو مزید تکلیف دینے کی کیا ضرورت؟“ | .35 |
اُن کی یہ بات نظرانداز کر کے عیسیٰ نے یائیر سے کہا، ”مت گھبراؤ، فقط ایمان رکھو۔“ | .36 |
پھر عیسیٰ نے ہجوم کو روک لیا اور صرف پطرس، یعقوب اور اُس کے بھائی یوحنا کو اپنے ساتھ جانے کی اجازت دی۔ | .37 |
جب عبادت خانے کے راہنما کے گھر پہنچے تو وہاں بڑی افرا تفری نظر آئی۔ لوگ خوب گریہ و زاری کر رہے تھے۔ | .38 |
اندر جا کر عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”یہ کیسا شور شرابہ ہے؟ کیوں رو رہے ہو؟ لڑکی مر نہیں گئی بلکہ سو رہی ہے۔“ | .39 |
لوگ ہنس کر اُس کا مذاق اُڑانے لگے۔ لیکن اُس نے سب کو باہر نکال دیا۔ پھر صرف لڑکی کے والدین اور اپنے تین شاگردوں کو ساتھ لے کر وہ اُس کمرے میں داخل ہوا جس میں لڑکی پڑی تھی۔ | .40 |
اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ”طلتھا قُوم!“ اِس کا مطلب ہے، ”چھوٹی لڑکی، مَیں تجھے حکم دیتا ہوں کہ جاگ اُٹھ!“ | .41 |
لڑکی فوراً اُٹھ کر چلنے پھرنے لگی۔ اُس کی عمر بارہ سال تھی۔ یہ دیکھ کر لوگ گھبرا کر حیران رہ گئے۔ | .42 |
عیسیٰ نے اُنہیں سنجیدگی سے سمجھایا کہ وہ کسی کو بھی اِس کے بارے میں نہ بتائیں۔ پھر اُس نے اُنہیں کہا کہ اُسے کھانے کو کچھ دو۔ | .43 |
← Mark 5/16 → |