← Mark 14/16 → |
فسح اور بےخمیری روٹی کی عید قریب آ گئی تھی۔ صرف دو دن رہ گئے تھے۔ راہنما امام اور شریعت کے علما عیسیٰ کو کسی چالاکی سے گرفتار کر کے قتل کرنے کی تلاش میں تھے۔ | .1 |
اُنہوں نے کہا، ”لیکن یہ عید کے دوران نہیں ہونا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ عوام میں ہل چل مچ جائے۔“ | .2 |
اِتنے میں عیسیٰ بیت عنیاہ آ کر ایک آدمی کے گھر میں داخل ہوا جو کسی وقت کوڑھ کا مریض تھا۔ اُس کا نام شمعون تھا۔ عیسیٰ کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گیا تو ایک عورت آئی۔ اُس کے پاس خالص جٹاماسی کے نہایت قیمتی عطر کا عطردان تھا۔ اُس کا سر توڑ کر اُس نے عطر عیسیٰ کے سر پر اُنڈیل دیا۔ | .3 |
حاضرین میں سے کچھ ناراض ہوئے۔ ”اِتنا قیمتی عطر ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ | .4 |
اِس کی قیمت کم از کم چاندی کے 300 سِکے تھی۔ اگر اِسے بیچا جاتا تو اِس کے پیسے غریبوں کو دیئے جا سکتے تھے۔“ ایسی باتیں کرتے ہوئے اُنہوں نے اُسے جھڑکا۔ | .5 |
لیکن عیسیٰ نے کہا، ”اِسے چھوڑ دو، تم اِسے کیوں تنگ کر رہے ہو؟ اِس نے تو میرے لئے ایک نیک کام کیا ہے۔ | .6 |
غریب تو ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گے، اور تم جب بھی چاہو اُن کی مدد کر سکو گے۔ لیکن مَیں ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا۔ | .7 |
جو کچھ وہ کر سکتی تھی اُس نے کیا ہے۔ مجھ پر عطر اُنڈیلنے سے وہ مقررہ وقت سے پہلے میرے بدن کو دفنانے کے لئے تیار کر چکی ہے۔ | .8 |
مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ تمام دنیا میں جہاں بھی اللہ کی خوش خبری کا اعلان کیا جائے گا وہاں لوگ اِس خاتون کو یاد کر کے وہ کچھ سنائیں گے جو اِس نے کیا ہے۔“ | .9 |
پھر یہوداہ اسکریوتی جو بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا راہنما اماموں کے پاس گیا تاکہ عیسیٰ کو اُن کے حوالے کرنے کی بات کرے۔ | .10 |
اُس کے آنے کا مقصد سن کر وہ خوش ہوئے اور اُسے پیسے دینے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ وہ عیسیٰ کو اُن کے حوالے کرنے کا موقع ڈھونڈنے لگا۔ | .11 |
بےخمیری روٹی کی عید آئی جب لوگ فسح کے لیلے کو قربان کرتے تھے۔ عیسیٰ کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا، ”ہم کہاں آپ کے لئے فسح کا کھانا تیار کریں؟“ | .12 |
چنانچہ عیسیٰ نے اُن میں سے دو کو یہ ہدایت دے کر یروشلم بھیج دیا کہ ”جب تم شہر میں داخل ہو گے تو تمہاری ملاقات ایک آدمی سے ہو گی جو پانی کا گھڑا اُٹھائے چل رہا ہو گا۔ اُس کے پیچھے ہو لینا۔ | .13 |
جس گھر میں وہ داخل ہو اُس کے مالک سے کہنا، ’اُستاد آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کمرا کہاں ہے جہاں مَیں اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کا کھانا کھاؤں؟‘ | .14 |
وہ تمہیں دوسری منزل پر ایک بڑا اور سجا ہوا کمرا دکھائے گا۔ وہ تیار ہو گا۔ ہمارے لئے فسح کا کھانا وہیں تیار کرنا۔“ | .15 |
دونوں چلے گئے تو شہر میں داخل ہو کر سب کچھ ویسا ہی پایا جیسا عیسیٰ نے اُنہیں بتایا تھا۔ پھر اُنہوں نے فسح کا کھانا تیار کیا۔ | .16 |
شام کے وقت عیسیٰ بارہ شاگردوں سمیت وہاں پہنچ گیا۔ | .17 |
جب وہ میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے تو اُس نے کہا، ”مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں، تم میں سے ایک جو میرے ساتھ کھانا کھا رہا ہے مجھے دشمن کے حوالے کر دے گا۔“ | .18 |
شاگرد یہ سن کر غمگین ہوئے۔ باری باری اُنہوں نے اُس سے پوچھا، ”مَیں تو نہیں ہوں؟“ | .19 |
عیسیٰ نے جواب دیا، ”تم بارہ میں سے ایک ہے۔ وہ میرے ساتھ اپنی روٹی سالن کے برتن میں ڈال رہا ہے۔ | .20 |
ابنِ آدم تو کوچ کر جائے گا جس طرح کلامِ مُقدّس میں لکھا ہے، لیکن اُس شخص پر افسوس جس کے وسیلے سے اُسے دشمن کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اُس کے لئے بہتر یہ ہوتا کہ وہ کبھی پیدا ہی نہ ہوتا۔“ | .21 |
کھانے کے دوران عیسیٰ نے روٹی لے کر شکرگزاری کی دعا کی اور اُسے ٹکڑے کر کے شاگردوں کو دے دیا۔ اُس نے کہا، ”یہ لو، یہ میرا بدن ہے۔“ | .22 |
پھر اُس نے مَے کا پیالہ لے کر شکرگزاری کی دعا کی اور اُسے اُنہیں دے دیا۔ سب نے اُس میں سے پی لیا۔ | .23 |
اُس نے اُن سے کہا، ”یہ میرا خون ہے، نئے عہد کا وہ خون جو بہتوں کے لئے بہایا جاتا ہے۔ | .24 |
مَیں تم کو سچ بتاتا ہوں کہ اب سے مَیں انگور کا رس نہیں پیؤں گا، کیونکہ اگلی دفعہ اِسے نئے سرے سے اللہ کی بادشاہی میں ہی پیؤں گا۔“ | .25 |
پھر وہ ایک زبور گا کر نکلے اور زیتون کے پہاڑ کے پاس پہنچے۔ | .26 |
عیسیٰ نے اُنہیں بتایا، ”تم سب برگشتہ ہو جاؤ گے، کیونکہ کلامِ مُقدّس میں اللہ فرماتا ہے، ’مَیں چرواہے کو مار ڈالوں گا اور بھیڑیں تتر بتر ہو جائیں گی۔‘ | .27 |
لیکن اپنے جی اُٹھنے کے بعد مَیں تمہارے آگے آگے گلیل پہنچوں گا۔“ | .28 |
پطرس نے اعتراض کیا، ”دوسرے بےشک سب برگشتہ ہو جائیں، لیکن مَیں کبھی نہیں ہوں گا۔“ | .29 |
عیسیٰ نے جواب دیا، ”مَیں تجھے سچ بتاتا ہوں، اِسی رات مرغ کے دوسری دفعہ بانگ دینے سے پہلے پہلے تُو تین بار مجھے جاننے سے انکار کر چکا ہو گا۔“ | .30 |
پطرس نے اصرار کیا، ”ہرگز نہیں! مَیں آپ کو جاننے سے کبھی انکار نہیں کروں گا، چاہے مجھے آپ کے ساتھ مرنا بھی پڑے۔“ دوسروں نے بھی یہی کچھ کہا۔ | .31 |
وہ ایک باغ میں پہنچے جس کا نام گتسمنی تھا۔ عیسیٰ نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”یہاں بیٹھ کر میرا انتظار کرو۔ مَیں دعا کرنے کے لئے آگے جاتا ہوں۔“ | .32 |
اُس نے پطرس، یعقوب اور یوحنا کو ساتھ لیا۔ وہاں وہ گھبرا کر بےقرار ہونے لگا۔ | .33 |
اُس نے اُن سے کہا، ”مَیں دُکھ سے اِتنا دبا ہوا ہوں کہ مرنے کو ہوں۔ یہاں ٹھہر کر جاگتے رہو۔“ | .34 |
کچھ آگے جا کر وہ زمین پر گر گیا اور دعا کرنے لگا کہ اگر ممکن ہو تو مجھے آنے والی گھڑیوں کی تکلیف سے گزرنا نہ پڑے۔ | .35 |
اُس نے کہا، ”اے ابّا، اے باپ! تیرے لئے سب کچھ ممکن ہے۔ دُکھ کا یہ پیالہ مجھ سے ہٹا لے۔ لیکن میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔“ | .36 |
وہ اپنے شاگردوں کے پاس واپس آیا تو دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں۔ اُس نے پطرس سے کہا، ”شمعون، کیا تُو سو رہا ہے؟ کیا تُو ایک گھنٹا بھی نہیں جاگ سکا؟ | .37 |
جاگتے اور دعا کرتے رہو تاکہ تم آزمائش میں نہ پڑو۔ کیونکہ روح تو تیار ہے، لیکن جسم کمزور۔“ | .38 |
ایک بار پھر اُس نے جا کر وہی دعا کی جو پہلے کی تھی۔ | .39 |
جب واپس آیا تو دوبارہ دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں، کیونکہ نیند کی بدولت اُن کی آنکھیں بوجھل تھیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا جواب دیں۔ | .40 |
جب عیسیٰ تیسری بار واپس آیا تو اُس نے اُن سے کہا، ”تم ابھی تک سو اور آرام کر رہے ہو؟ بس کافی ہے۔ وقت آ گیا ہے۔ دیکھو، ابنِ آدم کو گناہ گاروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ | .41 |
اُٹھو۔ آؤ، چلیں۔ دیکھو، مجھے دشمن کے حوالے کرنے والا قریب آ چکا ہے۔“ | .42 |
وہ ابھی یہ بات کر ہی رہا تھا کہ یہوداہ پہنچ گیا، جو بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا۔ اُس کے ساتھ تلواروں اور لاٹھیوں سے لیس آدمیوں کا ہجوم تھا۔ اُنہیں راہنما اماموں، شریعت کے علما اور بزرگوں نے بھیجا تھا۔ | .43 |
اِس غدار یہوداہ نے اُنہیں ایک امتیازی نشان دیا تھا کہ جس کو مَیں بوسہ دوں وہی عیسیٰ ہے۔ اُسے گرفتار کر کے لے جائیں۔ | .44 |
جوں ہی وہ پہنچے یہوداہ عیسیٰ کے پاس گیا اور ”اُستاد!“ کہہ کر اُسے بوسہ دیا۔ | .45 |
اِس پر اُنہوں نے اُسے پکڑ کر گرفتار کر لیا۔ | .46 |
لیکن عیسیٰ کے پاس کھڑے ایک شخص نے اپنی تلوار میان سے نکالی اور امامِ اعظم کے غلام کو مار کر اُس کا کان اُڑا دیا۔ | .47 |
عیسیٰ نے اُن سے پوچھا، ”کیا مَیں ڈاکو ہوں کہ تم تلواریں اور لاٹھیاں لئے مجھے گرفتار کرنے نکلے ہو؟ | .48 |
مَیں تو روزانہ بیت المُقدّس میں تمہارے پاس تھا اور تعلیم دیتا رہا، مگر تم نے مجھے گرفتار نہیں کیا۔ لیکن یہ اِس لئے ہو رہا ہے تاکہ کلامِ مُقدّس کی باتیں پوری ہو جائیں۔“ | .49 |
پھر سب کے سب اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ | .50 |
لیکن ایک نوجوان عیسیٰ کے پیچھے پیچھے چلتا رہا جو صرف چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ لوگوں نے اُسے پکڑنے کی کوشش کی، | .51 |
لیکن وہ چادر چھوڑ کر ننگی حالت میں بھاگ گیا۔ | .52 |
وہ عیسیٰ کو امامِ اعظم کے پاس لے گئے جہاں تمام راہنما امام، بزرگ اور شریعت کے علما بھی جمع تھے۔ | .53 |
اِتنے میں پطرس کچھ فاصلے پر عیسیٰ کے پیچھے پیچھے امامِ اعظم کے صحن تک پہنچ گیا۔ وہاں وہ ملازموں کے ساتھ بیٹھ کر آگ تاپنے لگا۔ | .54 |
مکان کے اندر راہنما امام اور یہودی عدالتِ عالیہ کے تمام افراد عیسیٰ کے خلاف گواہیاں ڈھونڈ رہے تھے تاکہ اُسے سزائے موت دلوا سکیں۔ لیکن کوئی گواہی نہ ملی۔ | .55 |
کافی لوگوں نے اُس کے خلاف جھوٹی گواہی تو دی، لیکن اُن کے بیان ایک دوسرے کے متضاد تھے۔ | .56 |
آخرکار بعض نے کھڑے ہو کر یہ جھوٹی گواہی دی، | .57 |
”ہم نے اِسے یہ کہتے سنا ہے کہ مَیں انسان کے ہاتھوں کے بنے اِس بیت المُقدّس کو ڈھا کر تین دن کے اندر اندر نیا مقدِس تعمیر کر دوں گا، ایک ایسا مقدِس جو انسان کے ہاتھ نہیں بنائیں گے۔“ | .58 |
لیکن اُن کی گواہیاں بھی ایک دوسری سے متضاد تھیں۔ | .59 |
پھر امامِ اعظم نے حاضرین کے سامنے کھڑے ہو کر عیسیٰ سے پوچھا، ”کیا تُو کوئی جواب نہیں دے گا؟ یہ کیا گواہیاں ہیں جو یہ لوگ تیرے خلاف دے رہے ہیں؟“ | .60 |
لیکن عیسیٰ خاموش رہا۔ اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ امامِ اعظم نے اُس سے ایک اَور سوال کیا، ”کیا تُو الحمید کا فرزند مسیح ہے؟“ | .61 |
عیسیٰ نے کہا، ”جی، مَیں ہوں۔ اور آئندہ تم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کے دہنے ہاتھ بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے ہوئے دیکھو گے۔“ | .62 |
امامِ اعظم نے رنجش کا اظہار کر کے اپنے کپڑے پھاڑ لئے اور کہا، ”ہمیں مزید گواہوں کی کیا ضرورت رہی! | .63 |
آپ نے خود سن لیا ہے کہ اِس نے کفر بکا ہے۔ آپ کا کیا فیصلہ ہے؟“ سب نے اُسے سزائے موت کے لائق قرار دیا۔ | .64 |
پھر کچھ اُس پر تھوکنے لگے۔ اُنہوں نے اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور اُسے مُکے مار مار کر کہنے لگے، ”نبوّت کر!“ ملازموں نے بھی اُسے تھپڑ مارے۔ | .65 |
اِس دوران پطرس نیچے صحن میں تھا۔ امامِ اعظم کی ایک نوکرانی وہاں سے گزری | .66 |
اور دیکھا کہ پطرس وہاں آگ تاپ رہا ہے۔ اُس نے غور سے اُس پر نظر کی اور کہا، ”تم بھی ناصرت کے اُس آدمی عیسیٰ کے ساتھ تھے۔“ | .67 |
لیکن اُس نے انکار کیا، ”مَیں نہیں جانتا یا سمجھتا کہ تُو کیا بات کر رہی ہے۔“ یہ کہہ کر وہ گیٹ کے قریب چلا گیا۔ [اُسی لمحے مرغ نے بانگ دی۔] | .68 |
جب نوکرانی نے اُسے وہاں دیکھا تو اُس نے دوبارہ پاس کھڑے لوگوں سے کہا، ”یہ بندہ اُن میں سے ہے۔“ | .69 |
دوبارہ پطرس نے انکار کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پطرس کے ساتھ کھڑے لوگوں نے بھی اُس سے کہا، ”تم ضرور اُن میں سے ہو کیونکہ تم گلیل کے رہنے والے ہو۔“ | .70 |
اِس پر پطرس نے قَسم کھا کر کہا، ”مجھ پر لعنت اگر مَیں جھوٹ بول رہا ہوں۔ مَیں اُس آدمی کو نہیں جانتا جس کا ذکر تم کر رہے ہو۔“ | .71 |
فوراً مرغ کی بانگ دوسری مرتبہ سنائی دی۔ پھر پطرس کو وہ بات یاد آئی جو عیسیٰ نے اُس سے کہی تھی، ”مرغ کے دوسری دفعہ بانگ دینے سے پہلے پہلے تُو تین بار مجھے جاننے سے انکار کر چکا ہو گا۔“ اِس پر وہ رو پڑا۔ | .72 |
← Mark 14/16 → |