← Luke 8/24 → |
اِس کے کچھ دیر بعد عیسیٰ مختلف شہروں اور دیہاتوں میں سے گزر کر سفر کرنے لگا۔ ہر جگہ اُس نے اللہ کی بادشاہی کے بارے میں خوش خبری سنائی۔ اُس کے بارہ شاگرد اُس کے ساتھ تھے، | .1 |
نیز کچھ خواتیں بھی جنہیں اُس نے بدروحوں سے رِہائی اور بیماریوں سے شفا دی تھی۔ اِن میں سے ایک مریم تھی جو مگدلینی کہلاتی تھی جس میں سے سات بدروحیں نکالی گئی تھیں۔ | .2 |
پھر یُوٲنّہ جو خوزہ کی بیوی تھی (خوزہ ہیرودیس بادشاہ کا ایک افسر تھا)۔ سوسناہ اور دیگر کئی خواتین بھی تھیں جو اپنے مالی وسائل سے اُن کی خدمت کرتی تھیں۔ | .3 |
ایک دن عیسیٰ نے ایک بڑے ہجوم کو ایک تمثیل سنائی۔ لوگ مختلف شہروں سے اُسے سننے کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ | .4 |
”ایک کسان بیج بونے کے لئے نکلا۔ جب بیج اِدھر اُدھر بکھر گیا تو کچھ دانے راستے پر گرے۔ وہاں اُنہیں پاؤں تلے کچلا گیا اور پرندوں نے اُنہیں چگ لیا۔ | .5 |
کچھ پتھریلی زمین پر گرے۔ وہاں وہ اُگنے تو لگے، لیکن نمی کی کمی تھی، اِس لئے پودے کچھ دیر کے بعد سوکھ گئے۔ | .6 |
کچھ دانے خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان بھی گرے۔ وہاں وہ اُگنے تو لگے، لیکن خود رَو پودوں نے ساتھ ساتھ بڑھ کر اُنہیں پھلنے پھولنے کی جگہ نہ دی۔ چنانچہ وہ بھی ختم ہو گئے۔ | .7 |
لیکن ایسے دانے بھی تھے جو زرخیز زمین پر گرے۔ وہاں وہ اُگ سکے اور جب فصل پک گئی تو سَو گُنا زیادہ پھل پیدا ہوا۔“ یہ کہہ کر عیسیٰ پکار اُٹھا، ”جو سن سکتا ہے وہ سن لے!“ | .8 |
اُس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اِس تمثیل کا کیا مطلب ہے؟ | .9 |
جواب میں اُس نے کہا، ”تم کو تو اللہ کی بادشاہی کے بھید سمجھنے کی لیاقت دی گئی ہے۔ لیکن مَیں دوسروں کو سمجھانے کے لئے تمثیلیں استعمال کرتا ہوں تاکہ پاک کلام پورا ہو جائے کہ ’وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے مگر کچھ نہیں جانیں گے، وہ اپنے کانوں سے سنیں گے مگر کچھ نہیں سمجھیں گے۔‘ | .10 |
تمثیل کا مطلب یہ ہے: بیج سے مراد اللہ کا کلام ہے۔ | .11 |
راہ پر گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سنتے تو ہیں، لیکن پھر ابلیس آ کر اُسے اُن کے دلوں سے چھین لیتا ہے، ایسا نہ ہو کہ وہ ایمان لا کر نجات پائیں۔ | .12 |
پتھریلی زمین پر گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو کلام سن کر اُسے خوشی سے قبول تو کر لیتے ہیں، لیکن جڑ نہیں پکڑتے۔ نتیجے میں اگرچہ وہ کچھ دیر کے لئے ایمان رکھتے ہیں توبھی جب کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ | .13 |
خود رَو کانٹےدار پودوں کے درمیان گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جو سنتے تو ہیں، لیکن جب وہ چلے جاتے ہیں تو روزمرہ کی پریشانیاں، دولت اور زندگی کی عیش و عشرت اُنہیں پھلنے پھولنے نہیں دیتی۔ نتیجے میں وہ پھل لانے تک نہیں پہنچتے۔ | .14 |
اِس کے مقابلے میں زرخیز زمین میں گرے ہوئے دانے وہ لوگ ہیں جن کا دل دیانت دار اور اچھا ہے۔ جب وہ کلام سنتے ہیں تو وہ اُسے اپناتے اور ثابت قدمی سے ترقی کرتے کرتے پھل لاتے ہیں۔ | .15 |
جب کوئی چراغ جلاتا ہے تو وہ اُسے کسی برتن یا چارپائی کے نیچے نہیں رکھتا، بلکہ اُسے شمع دان پر رکھ دیتا ہے تاکہ اُس کی روشنی اندر آنے والوں کو نظر آئے۔ | .16 |
جو کچھ بھی اِس وقت پوشیدہ ہے وہ آخر میں ظاہر ہو جائے گا، اور جو کچھ بھی چھپا ہوا ہے وہ معلوم ہو جائے گا اور روشنی میں لایا جائے گا۔ | .17 |
چنانچہ اِس پر دھیان دو کہ تم کس طرح سنتے ہو۔ کیونکہ جس کے پاس کچھ ہے اُسے اَور دیا جائے گا، جبکہ جس کے پاس کچھ نہیں ہے اُس سے وہ بھی چھین لیا جائے گا جس کے بارے میں وہ خیال کرتا ہے کہ اُس کا ہے۔“ | .18 |
ایک دن عیسیٰ کی ماں اور بھائی اُس کے پاس آئے، لیکن وہ ہجوم کی وجہ سے اُس تک نہ پہنچ سکے۔ | .19 |
چنانچہ عیسیٰ کو اطلاع دی گئی، ”آپ کی ماں اور بھائی باہر کھڑے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ | .20 |
اُس نے جواب دیا، ”میری ماں اور بھائی وہ سب ہیں جو اللہ کا کلام سن کر اُس پر عمل کرتے ہیں۔“ | .21 |
ایک دن عیسیٰ نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”آؤ، ہم جھیل کو پار کریں۔“ چنانچہ وہ کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہوئے۔ | .22 |
جب کشتی چلی جا رہی تھی تو عیسیٰ سو گیا۔ اچانک جھیل پر آندھی آئی۔ کشتی پانی سے بھرنے لگی اور ڈوبنے کا خطرہ تھا۔ | .23 |
پھر اُنہوں نے عیسیٰ کے پاس جا کر اُسے جگا دیا اور کہا، ”اُستاد، اُستاد، ہم تباہ ہو رہے ہیں۔“ وہ جاگ اُٹھا اور آندھی اور موجوں کو ڈانٹا۔ آندھی تھم گئی اور لہریں بالکل ساکت ہو گئیں۔ | .24 |
پھر اُس نے شاگردوں سے پوچھا، ”تمہارا ایمان کہاں ہے؟“ اُن پر خوف طاری ہو گیا اور وہ سخت حیران ہو کر آپس میں کہنے لگے، ”آخر یہ کون ہے؟ وہ ہَوا اور پانی کو بھی حکم دیتا ہے، اور وہ اُس کی مانتے ہیں۔“ | .25 |
پھر وہ سفر جاری رکھتے ہوئے گراسا کے علاقے کے کنارے پر پہنچے جو جھیل کے پار گلیل کے مقابل ہے۔ | .26 |
جب عیسیٰ کشتی سے اُترا تو شہر کا ایک آدمی عیسیٰ کو ملا جو بدروحوں کی گرفت میں تھا۔ وہ کافی دیر سے کپڑے پہنے بغیر چلتا پھرتا تھا اور اپنے گھر کے بجائے قبروں میں رہتا تھا۔ | .27 |
عیسیٰ کو دیکھ کر وہ چلّایا اور اُس کے سامنے گر گیا۔ اونچی آواز سے اُس نے کہا، ”عیسیٰ اللہ تعالیٰ کے فرزند، میرا آپ کے ساتھ کیا واسطہ ہے؟ مَیں منت کرتا ہوں، مجھے عذاب میں نہ ڈالیں۔“ | .28 |
کیونکہ عیسیٰ نے ناپاک روح کو حکم دیا تھا، ”آدمی میں سے نکل جا!“ اِس بدروح نے بڑی دیر سے اُس پر قبضہ کیا ہوا تھا، اِس لئے لوگوں نے اُس کے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے باندھ کر اُس کی پہرہ داری کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن بےفائدہ۔ وہ زنجیروں کو توڑ ڈالتا اور بدروح اُسے ویران علاقوں میں بھگائے پھرتی تھی۔ | .29 |
عیسیٰ نے اُس سے پوچھا، ”تیرا نام کیا ہے؟“ اُس نے جواب دیا، ”لشکر۔“ اِس نام کی وجہ یہ تھی کہ اُس میں بہت سی بدروحیں گھسی ہوئی تھیں۔ | .30 |
اب یہ منت کرنے لگیں، ”ہمیں اتھاہ گڑھے میں جانے کو نہ کہیں۔“ | .31 |
اُس وقت قریب کی پہاڑی پر سؤروں کا بڑا غول چر رہا تھا۔ بدروحوں نے عیسیٰ سے التماس کی، ”ہمیں اُن سؤروں میں داخل ہونے دیں۔“ اُس نے اجازت دے دی۔ | .32 |
چنانچہ وہ اُس آدمی میں سے نکل کر سؤروں میں جا گھسیں۔ اِس پر پورے غول کے سؤر بھاگ بھاگ کر پہاڑی کی ڈھلان پر سے اُترے اور جھیل میں جھپٹ کر ڈوب مرے۔ | .33 |
یہ دیکھ کر سؤروں کے گلہ بان بھاگ گئے۔ اُنہوں نے شہر اور دیہات میں اِس بات کا چرچا کیا | .34 |
تو لوگ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کیا ہوا ہے اپنی جگہوں سے نکل کر عیسیٰ کے پاس آئے۔ اُس کے پاس پہنچے تو وہ آدمی ملا جس سے بدروحیں نکل گئی تھیں۔ اب وہ کپڑے پہنے عیسیٰ کے پاؤں میں بیٹھا تھا اور اُس کی ذہنی حالت ٹھیک تھی۔ یہ دیکھ کر وہ ڈر گئے۔ | .35 |
جنہوں نے سب کچھ دیکھا تھا اُنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ اِس بدروح گرفتہ آدمی کو کس طرح رِہائی ملی ہے۔ | .36 |
پھر اُس علاقے کے تمام لوگوں نے عیسیٰ سے درخواست کی کہ وہ اُنہیں چھوڑ کر چلا جائے، کیونکہ اُن پر بڑا خوف چھا گیا تھا۔ چنانچہ عیسیٰ کشتی پر سوار ہو کر واپس چلا گیا۔ | .37 |
جس آدمی سے بدروحیں نکل گئی تھیں اُس نے اُس سے التماس کی، ”مجھے بھی اپنے ساتھ جانے دیں۔“ لیکن عیسیٰ نے اُسے اجازت نہ دی بلکہ کہا، | .38 |
”اپنے گھر واپس چلا جا اور دوسروں کو وہ سب کچھ بتا جو اللہ نے تیرے لئے کیا ہے۔“ چنانچہ وہ واپس چلا گیا اور پورے شہر میں لوگوں کو بتانے لگا کہ عیسیٰ نے میرے لئے کیا کچھ کیا ہے۔ | .39 |
جب عیسیٰ جھیل کے دوسرے کنارے پر واپس پہنچا تو لوگوں نے اُس کا استقبال کیا، کیونکہ وہ اُس کے انتظار میں تھے۔ | .40 |
اِتنے میں ایک آدمی عیسیٰ کے پاس آیا جس کا نام یائیر تھا۔ وہ مقامی عبادت خانے کا راہنما تھا۔ وہ عیسیٰ کے پاؤں میں گر کر منت کرنے لگا، ”میرے گھر چلیں۔“ | .41 |
کیونکہ اُس کی اکلوتی بیٹی جو تقریباً بارہ سال کی تھی مرنے کو تھی۔ عیسیٰ چل پڑا۔ ہجوم نے اُسے یوں گھیرا ہوا تھا کہ سانس لینا بھی مشکل تھا۔ | .42 |
ہجوم میں ایک خاتون تھی جو بارہ سال سے خون بہنے کے مرض سے رِہائی نہ پا سکی تھی۔ کوئی اُسے شفا نہ دے سکا تھا۔ | .43 |
اب اُس نے پیچھے سے آ کر عیسیٰ کے لباس کے کنارے کو چھوا۔ خون بہنا فوراً بند ہو گیا۔ | .44 |
لیکن عیسیٰ نے پوچھا، ”کس نے مجھے چھوا ہے؟“ سب نے انکار کیا اور پطرس نے کہا، ”اُستاد، یہ تمام لوگ تو آپ کو گھیر کر دبا رہے ہیں۔“ | .45 |
لیکن عیسیٰ نے اصرار کیا، ”کسی نے ضرور مجھے چھوا ہے، کیونکہ مجھے محسوس ہوا ہے کہ مجھ میں سے توانائی نکلی ہے۔“ | .46 |
جب اُس خاتون نے دیکھا کہ بھید کھل گیا تو وہ لرزتی ہوئی آئی اور اُس کے سامنے گر گئی۔ پورے ہجوم کی موجودگی میں اُس نے بیان کیا کہ اُس نے عیسیٰ کو کیوں چھوا تھا اور کہ چھوتے ہی اُسے شفا مل گئی تھی۔ | .47 |
عیسیٰ نے کہا، ”بیٹی، تیرے ایمان نے تجھے بچا لیا ہے۔ سلامتی سے چلی جا۔“ | .48 |
عیسیٰ نے یہ بات ابھی ختم نہیں کی تھی کہ عبادت خانے کے راہنما یائیر کے گھر سے کوئی شخص آ پہنچا۔ اُس نے کہا، ”آپ کی بیٹی فوت ہو چکی ہے، اب اُستاد کو مزید تکلیف نہ دیں۔“ | .49 |
لیکن عیسیٰ نے یہ سن کر کہا، ”مت گھبرا۔ فقط ایمان رکھ تو وہ بچ جائے گی۔“ | .50 |
وہ گھر پہنچ گئے تو عیسیٰ نے کسی کو بھی سوائے پطرس، یوحنا، یعقوب اور بیٹی کے والدین کے اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ | .51 |
تمام لوگ رو رہے اور چھاتی پیٹ پیٹ کر ماتم کر رہے تھے۔ عیسیٰ نے کہا، ”خاموش! وہ مر نہیں گئی بلکہ سو رہی ہے۔“ | .52 |
لوگ ہنس کر اُس کا مذاق اُڑانے لگے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لڑکی مر گئی ہے۔ | .53 |
لیکن عیسیٰ نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اونچی آواز سے کہا، ”بیٹی، جاگ اُٹھ!“ | .54 |
لڑکی کی جان واپس آ گئی اور وہ فوراً اُٹھ کھڑی ہوئی۔ پھر عیسیٰ نے حکم دیا کہ اُسے کچھ کھانے کو دیا جائے۔ | .55 |
یہ سب کچھ دیکھ کر اُس کے والدین حیرت زدہ ہوئے۔ لیکن اُس نے اُنہیں کہا کہ اِس کے بارے میں کسی کو بھی نہ بتانا۔ | .56 |
← Luke 8/24 → |