← Judges 16/21 → |
ایک دن سمسون فلستی شہر غزہ میں آیا۔ وہاں وہ ایک کسبی کو دیکھ کر اُس کے گھر میں داخل ہوا۔ | .1 |
جب شہر کے باشندوں کو اطلاع ملی کہ سمسون شہر میں ہے تو اُنہوں نے کسبی کے گھر کو گھیر لیا۔ ساتھ ساتھ وہ رات کے وقت شہر کے دروازے پر تاک میں رہے۔ فیصلہ یہ ہوا، ”رات کے وقت ہم کچھ نہیں کریں گے، جب پَو پھٹے گی تب اُسے مار ڈالیں گے۔“ | .2 |
سمسون اب تک کسبی کے گھر میں سو رہا تھا۔ لیکن آدھی رات کو وہ اُٹھ کر شہر کے دروازے کے پاس گیا اور دونوں کواڑوں کو کنڈے اور دروازے کے دونوں بازوؤں سمیت اُکھاڑ کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا۔ یوں چلتے چلتے وہ سب کچھ اُس پہاڑی کی چوٹی پر لے گیا جو حبرون کے مقابل ہے۔ | .3 |
کچھ دیر کے بعد سمسون ایک عورت کی محبت میں گرفتار ہو گیا جو وادیِ سورق میں رہتی تھی۔ اُس کا نام دلیلہ تھا۔ | .4 |
یہ سن کر فلستی سردار اُس کے پاس آئے اور کہنے لگے، ”سمسون کو اُکسائیں کہ وہ آپ کو اپنی بڑی طاقت کا بھید بتائے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کس طرح اُس پر غالب آ کر اُسے یوں باندھ سکیں کہ وہ ہمارے قبضے میں رہے۔ اگر آپ یہ معلوم کر سکیں تو ہم میں سے ہر ایک آپ کو چاندی کے 1,100 سِکے دے گا۔“ | .5 |
چنانچہ دلیلہ نے سمسون سے سوال کیا، ”مجھے اپنی بڑی طاقت کا بھید بتائیں۔ کیا آپ کو کسی ایسی چیز سے باندھا جا سکتا ہے جسے آپ توڑ نہیں سکتے؟“ | .6 |
سمسون نے جواب دیا، ”اگر مجھے جانوروں کی سات تازہ نسوں سے باندھا جائے تو پھر مَیں عام آدمی جیسا کمزور ہو جاؤں گا۔“ | .7 |
فلستی سرداروں نے دلیلہ کو سات تازہ نسیں مہیا کر دیں، اور اُس نے سمسون کو اُن سے باندھ لیا۔ | .8 |
کچھ فلستی آدمی ساتھ والے کمرے میں چھپ گئے۔ پھر دلیلہ چلّا اُٹھی، ”سمسون، فلستی آپ کو پکڑنے آئے ہیں!“ یہ سن کر سمسون نے نسوں کو یوں توڑ دیا جس طرح ڈوری ٹوٹ جاتی ہے جب آگ میں سے گزرتی ہے۔ چنانچہ اُس کی طاقت کا پول نہ کھلا۔ | .9 |
دلیلہ کا منہ لٹک گیا۔ ”آپ نے جھوٹ بول کر مجھے بےوقوف بنایا ہے۔ اب آئیں، مہربانی کر کے مجھے بتائیں کہ آپ کو کس طرح باندھا جا سکتا ہے۔“ | .10 |
سمسون نے جواب دیا، ”اگر مجھے غیراستعمال شدہ رسّوں سے باندھا جائے تو پھر ہی مَیں عام آدمی جیسا کمزور ہو جاؤں گا۔“ | .11 |
دلیلہ نے نئے رسّے لے کر اُسے اُن سے باندھ لیا۔ اِس مرتبہ بھی فلستی ساتھ والے کمرے میں چھپ گئے تھے۔ پھر دلیلہ چلّا اُٹھی، ”سمسون، فلستی آپ کو پکڑنے آئے ہیں!“ لیکن اِس بار بھی سمسون نے رسّوں کو یوں توڑ لیا جس طرح عام آدمی ڈوری کو توڑ لیتا ہے۔ | .12 |
دلیلہ نے شکایت کی، ”آپ بار بار جھوٹ بول کر میرا مذاق اُڑا رہے ہیں۔ اب مجھے بتائیں کہ آپ کو کس طرح باندھا جا سکتا ہے۔“ سمسون نے جواب دیا، ”لازم ہے کہ آپ میری سات زُلفوں کو کھڈی کے تانے کے ساتھ بُنیں۔ پھر ہی عام آدمی جیسا کمزور ہو جاؤں گا۔“ | .13 |
جب سمسون سو رہا تھا تو دلیلہ نے ایسا ہی کیا۔ اُس کی سات زُلفوں کو تانے کے ساتھ بُن کر اُس نے اُسے شٹل کے ذریعے کھڈی کے ساتھ لگایا۔ پھر وہ چلّا اُٹھی، ”سمسون، فلستی آپ کو پکڑنے آئے ہیں!“ سمسون جاگ اُٹھا اور اپنے بالوں کو شٹل سمیت کھڈی سے نکال لیا۔ | .14 |
یہ دیکھ کر دلیلہ نے منہ پُھلا کر ملامت کی، ”آپ کس طرح دعویٰ کر سکتے ہیں کہ مجھ سے محبت رکھتے ہیں؟ اب آپ نے تین مرتبہ میرا مذاق اُڑا کر مجھے اپنی بڑی طاقت کا بھید نہیں بتایا۔“ | .15 |
روز بہ روز وہ اپنی باتوں سے اُس کی ناک میں دم کرتی رہی۔ آخرکار سمسون اِتنا تنگ آ گیا کہ اُس کا جینا دوبھر ہو گیا۔ | .16 |
پھر اُس نے اُسے کھل کر بات بتائی، ”مَیں پیدائش ہی سے اللہ کے لئے مخصوص ہوں، اِس لئے میرے بالوں کو کبھی نہیں کاٹا گیا۔ اگر سر کو منڈوایا جائے تو میری طاقت جاتی رہے گی اور مَیں ہر دوسرے آدمی جیسا کمزور ہو جاؤں گا۔“ | .17 |
دلیلہ نے جان لیا کہ اب سمسون نے مجھے پوری حقیقت بتائی ہے۔ اُس نے فلستی سرداروں کو اطلاع دی، ”آؤ، کیونکہ اِس مرتبہ اُس نے مجھے اپنے دل کی ہر بات بتائی ہے۔“ یہ سن کر وہ مقررہ چاندی اپنے ساتھ لے کر دلیلہ کے پاس آئے۔ | .18 |
دلیلہ نے سمسون کا سر اپنی گود میں رکھ کر اُسے سُلا دیا۔ پھر اُس نے ایک آدمی کو بُلا کر سمسون کی سات زُلفوں کو منڈوایا۔ یوں وہ اُسے پست کرنے لگی، اور اُس کی طاقت جاتی رہی۔ | .19 |
پھر وہ چلّا اُٹھی، ”سمسون، فلستی آپ کو پکڑنے آئے ہیں!“ سمسون جاگ اُٹھا اور سوچا، ”مَیں پہلے کی طرح اب بھی اپنے آپ کو بچا کر بندھن کو توڑ دوں گا۔“ افسوس، اُسے معلوم نہیں تھا کہ رب نے اُسے چھوڑ دیا ہے۔ | .20 |
فلستیوں نے اُسے پکڑ کر اُس کی آنکھیں نکال دیں۔ پھر وہ اُسے غزہ لے گئے جہاں اُسے پیتل کی زنجیروں سے باندھا گیا۔ وہاں وہ قیدخانے کی چکّی پیسا کرتا تھا۔ | .21 |
لیکن ہوتے ہوتے اُس کے بال دوبارہ بڑھنے لگے۔ | .22 |
ایک دن فلستی سردار بڑا جشن منانے کے لئے جمع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنے دیوتا دجون کو جانوروں کی بہت سی قربانیاں پیش کر کے اپنی فتح کی خوشی منائی۔ وہ بولے، ”ہمارے دیوتا نے ہمارے دشمن سمسون کو ہمارے حوالے کر دیا ہے۔“ | .23 |
سمسون کو دیکھ کر عوام نے دجون کی تمجید کر کے کہا، ”ہمارے دیوتا نے ہمارے دشمن کو ہمارے حوالے کر دیا ہے! جس نے ہمارے ملک کو تباہ کیا اور ہم میں سے اِتنے لوگوں کو مار ڈالا وہ اب ہمارے قابو میں آ گیا ہے!“ | .24 |
اِس قسم کی باتیں کرتے کرتے اُن کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ تب وہ چلّانے لگے، ”سمسون کو بُلاؤ تاکہ وہ ہمارے دلوں کو بہلائے۔“ چنانچہ اُسے اُن کی تفریح کے لئے جیل سے لایا گیا اور دو ستونوں کے درمیان کھڑا کر دیا گیا۔ | .25 |
سمسون اُس لڑکے سے مخاطب ہوا جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی راہنمائی کر رہا تھا، ”مجھے چھت کو اُٹھانے والے ستونوں کے پاس لے جاؤ تاکہ مَیں اُن کا سہارا لوں۔“ | .26 |
عمارت مردوں اور عورتوں سے بھری تھی۔ فلستی سردار بھی سب آئے ہوئے تھے۔ صرف چھت پر سمسون کا تماشا دیکھنے والے تقریباً 3,000 افراد تھے۔ | .27 |
پھر سمسون نے دعا کی، ”اے رب قادرِ مطلق، مجھے یاد کر۔ بس ایک دفعہ اَور مجھے پہلے کی طرح قوت عطا فرما تاکہ مَیں ایک ہی وار سے فلستیوں سے اپنی آنکھوں کا بدلہ لے سکوں۔“ | .28 |
یہ کہہ کر سمسون نے اُن دو مرکزی ستونوں کو پکڑ لیا جن پر چھت کا پورا وزن تھا۔ اُن کے درمیان کھڑے ہو کر اُس نے پوری طاقت سے زور لگایا | .29 |
اور دعا کی، ”مجھے فلستیوں کے ساتھ مرنے دے!“ اچانک ستون ہل گئے اور چھت دھڑام سے فلستیوں کے تمام سرداروں اور باقی لوگوں پر گر گئی۔ اِس طرح سمسون نے پہلے کی نسبت مرتے وقت کہیں زیادہ فلستیوں کو مار ڈالا۔ | .30 |
سمسون کے بھائی اور باقی گھر والے آئے اور اُس کی لاش کو اُٹھا کر اُس کے باپ منوحہ کی قبر کے پاس لے گئے۔ وہاں یعنی صُرعہ اور اِستال کے درمیان اُنہوں نے اُسے دفنایا۔ سمسون 20 سال اسرائیل کا قاضی رہا۔ | .31 |
← Judges 16/21 → |