John 4/21   

فریسیوں کو اطلاع ملی کہ عیسیٰ یحییٰ کی نسبت زیادہ شاگرد بنا رہا اور لوگوں کو بپتسمہ دے رہا ہے، .1
حالانکہ وہ خود بپتسمہ نہیں دیتا تھا بلکہ اُس کے شاگرد۔ .2
جب خداوند عیسیٰ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ یہودیہ کو چھوڑ کر گلیل کو واپس چلا گیا۔ .3
وہاں پہنچنے کے لئے اُسے سامریہ میں سے گزرنا تھا۔ .4
چلتے چلتے وہ ایک شہر کے پاس پہنچ گیا جس کا نام سوخار تھا۔ یہ اُس زمین کے قریب تھا جو یعقوب نے اپنے بیٹے یوسف کو دی تھی۔ .5
وہاں یعقوب کا کنواں تھا۔ عیسیٰ سفر سے تھک گیا تھا، اِس لئے وہ کنوئیں پر بیٹھ گیا۔ دوپہر کے تقریباً بارہ بج گئے تھے۔ .6
ایک سامری عورت پانی بھرنے آئی۔ عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”مجھے ذرا پانی پلا۔“ .7
(اُس کے شاگرد کھانا خریدنے کے لئے شہر گئے ہوئے تھے۔) .8
سامری عورت نے تعجب کیا، کیونکہ یہودی سامریوں کے ساتھ تعلق رکھنے سے انکار کرتے ہیں۔ اُس نے کہا، ”آپ تو یہودی ہیں، اور مَیں سامری عورت ہوں۔ آپ کس طرح مجھ سے پانی پلانے کی درخواست کر سکتے ہیں؟“ .9
عیسیٰ نے جواب دیا، ”اگر تُو اُس بخشش سے واقف ہوتی جو اللہ تجھ کو دینا چاہتا ہے اور تُو اُسے جانتی جو تجھ سے پانی مانگ رہا ہے تو تُو اُس سے مانگتی اور وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔“ .10
خاتون نے کہا، ”خداوند، آپ کے پاس تو بالٹی نہیں ہے اور یہ کنواں گہرا ہے۔ آپ کو زندگی کا یہ پانی کہاں سے ملا؟ .11
کیا آپ ہمارے باپ یعقوب سے بڑے ہیں جس نے ہمیں یہ کنواں دیا اور جو خود بھی اپنے بیٹوں اور ریوڑوں سمیت اُس کے پانی سے لطف اندوز ہوا؟“ .12
عیسیٰ نے جواب دیا، ”جو بھی اِس پانی میں سے پیئے اُسے دوبارہ پیاس لگے گی۔ .13
لیکن جسے مَیں پانی پلا دوں اُسے بعد میں کبھی بھی پیاس نہیں لگے گی۔ بلکہ جو پانی مَیں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جس سے پانی پھوٹ کر ابدی زندگی مہیا کرے گا۔“ .14
عورت نے اُس سے کہا، ”خداوند، مجھے یہ پانی پلا دیں۔ پھر مجھے کبھی بھی پیاس نہیں لگے گی اور مجھے بار بار یہاں آ کر پانی بھرنا نہیں پڑے گا۔“ .15
عیسیٰ نے کہا، ”جا، اپنے خاوند کو بُلا لا۔“ .16
عورت نے جواب دیا، ”میرا کوئی خاوند نہیں ہے۔“ عیسیٰ نے کہا، ”تُو نے صحیح کہا کہ میرا خاوند نہیں ہے، .17
کیونکہ تیری شادی پانچ مردوں سے ہو چکی ہے اور جس آدمی کے ساتھ تُو اب رہ رہی ہے وہ تیرا شوہر نہیں ہے۔ تیری بات بالکل درست ہے۔“ .18
عورت نے کہا، ”خداوند، مَیں دیکھتی ہوں کہ آپ نبی ہیں۔ .19
ہمارے باپ دادا تو اِسی پہاڑ پر عبادت کرتے تھے جبکہ آپ یہودی لوگ اصرار کرتے ہیں کہ یروشلم وہ مرکز ہے جہاں ہمیں عبادت کرنی ہے۔“ .20
عیسیٰ نے جواب دیا، ”اے خاتون، یقین جان کہ وہ وقت آئے گا جب تم نہ تو اِس پہاڑ پر باپ کی عبادت کرو گے، نہ یروشلم میں۔ .21
تم سامری اُس کی پرستش کرتے ہو جسے نہیں جانتے۔ اِس کے مقابلے میں ہم اُس کی پرستش کرتے ہیں جسے جانتے ہیں، کیونکہ نجات یہودیوں میں سے ہے۔ .22
لیکن وہ وقت آ رہا ہے بلکہ پہنچ چکا ہے جب حقیقی پرستار روح اور سچائی سے باپ کی پرستش کریں گے، کیونکہ باپ ایسے ہی پرستار چاہتا ہے۔ .23
اللہ روح ہے، اِس لئے لازم ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے اُس کی پرستش کریں۔“ .24
عورت نے اُس سے کہا، ”مجھے معلوم ہے کہ مسیح یعنی مسح کیا ہوا شخص آ رہا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب کچھ بتا دے گا۔“ .25
اِس پر عیسیٰ نے اُسے بتایا، ”مَیں ہی مسیح ہوں جو تیرے ساتھ بات کر رہا ہوں۔“ .26
اُسی لمحے شاگرد پہنچ گئے۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ عیسیٰ ایک عورت سے بات کر رہا ہے تو تعجب کیا۔ لیکن کسی نے پوچھنے کی جرٲت نہ کی کہ ”آپ کیا چاہتے ہیں؟“ یا ”آپ اِس عورت سے کیوں باتیں کر رہے ہیں؟“ .27
عورت اپنا گھڑا چھوڑ کر شہر میں چلی گئی اور وہاں لوگوں سے کہنے لگی، .28
”آؤ، ایک آدمی کو دیکھو جس نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے جو مَیں نے کیا ہے۔ وہ مسیح تو نہیں ہے؟“ .29
چنانچہ وہ شہر سے نکل کر عیسیٰ کے پاس آئے۔ .30
اِتنے میں شاگرد زور دے کر عیسیٰ سے کہنے لگے، ”اُستاد، کچھ کھانا کھا لیں۔“ .31
لیکن اُس نے جواب دیا، ”میرے پاس کھانے کی ایسی چیز ہے جس سے تم واقف نہیں ہو۔“ .32
شاگرد آپس میں کہنے لگے، ”کیا کوئی اُس کے پاس کھانا لے کر آیا؟“ .33
لیکن عیسیٰ نے اُن سے کہا، ”میرا کھانا یہ ہے کہ اُس کی مرضی پوری کروں جس نے مجھے بھیجا ہے اور اُس کا کام تکمیل تک پہنچاؤں۔ .34
تم تو خود کہتے ہو، ’مزید چار مہینے تک فصل پک جائے گی۔‘ لیکن مَیں تم کو بتاتا ہوں، اپنی نظر اُٹھا کر کھیتوں پر غور کرو۔ فصل پک گئی ہے اور کٹائی کے لئے تیار ہے۔ .35
فصل کی کٹائی شروع ہو چکی ہے۔ کٹائی کرنے والے کو مزدوری مل رہی ہے اور وہ فصل کو ابدی زندگی کے لئے جمع کر رہا ہے تاکہ بیج بونے والا اور کٹائی کرنے والا دونوں مل کر خوشی منا سکیں۔ .36
یوں یہ کہاوت درست ثابت ہو جاتی ہے کہ ’ایک بیج بوتا اور دوسرا فصل کاٹتا ہے۔‘ .37
مَیں نے تم کو اُس فصل کی کٹائی کرنے کے لئے بھیج دیا ہے جسے تیار کرنے کے لئے تم نے محنت نہیں کی۔ اَوروں نے خوب محنت کی ہے اور تم اِس سے فائدہ اُٹھا کر فصل جمع کر سکتے ہو۔“ .38
اُس شہر کے بہت سے سامری عیسیٰ پر ایمان لائے۔ وجہ یہ تھی کہ اُس عورت نے اُس کے بارے میں یہ گواہی دی تھی، ”اُس نے مجھے سب کچھ بتا دیا جو مَیں نے کیا ہے۔“ .39
جب وہ اُس کے پاس آئے تو اُنہوں نے منت کی، ”ہمارے پاس ٹھہریں۔“ چنانچہ وہ دو دن وہاں رہا۔ .40
اور اُس کی باتیں سن کر مزید بہت سے لوگ ایمان لائے۔ .41
اُنہوں نے عورت سے کہا، ”اب ہم تیری باتوں کی بنا پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ اِس لئے کہ ہم نے خود سن اور جان لیا ہے کہ واقعی دنیا کا نجات دہندہ یہی ہے۔“ .42
وہاں دو دن گزارنے کے بعد عیسیٰ گلیل کو چلا گیا۔ .43
اُس نے خود گواہی دے کر کہا تھا کہ نبی کی اُس کے اپنے وطن میں عزت نہیں ہوتی۔ .44
اب جب وہ گلیل پہنچا تو مقامی لوگوں نے اُسے خوش آمدید کہا، کیونکہ وہ فسح کی عید منانے کے لئے یروشلم آئے تھے اور اُنہوں نے سب کچھ دیکھا جو عیسیٰ نے وہاں کیا تھا۔ .45
پھر وہ دوبارہ قانا میں آیا جہاں اُس نے پانی کو مَے میں بدل دیا تھا۔ اُس علاقے میں ایک شاہی افسر تھا جس کا بیٹا کفرنحوم میں بیمار پڑا تھا۔ .46
جب اُسے اطلاع ملی کہ عیسیٰ یہودیہ سے گلیل پہنچ گیا ہے تو وہ اُس کے پاس گیا اور گزارش کی، ”قانا سے میرے پاس آ کر میرے بیٹے کو شفا دیں، کیونکہ وہ مرنے کو ہے۔“ .47
عیسیٰ نے اُس سے کہا، ”جب تک تم لوگ الٰہی نشان اور معجزے نہیں دیکھتے ایمان نہیں لاتے۔“ .48
شاہی افسر نے کہا، ”خداوند آئیں، اِس سے پہلے کہ میرا لڑکا مر جائے۔“ .49
عیسیٰ نے جواب دیا، ”جا، تیرا بیٹا زندہ رہے گا۔“ آدمی عیسیٰ کی بات پر ایمان لایا اور اپنے گھر چلا گیا۔ .50
وہ ابھی راستے میں تھا کہ اُس کے نوکر اُس سے ملے۔ اُنہوں نے اُسے اطلاع دی کہ بیٹا زندہ ہے۔ .51
اُس نے اُن سے پوچھ گچھ کی کہ اُس کی طبیعت کس وقت سے بہتر ہونے لگی تھی۔ اُنہوں نے جواب دیا، ”بخار کل دوپہر ایک بجے اُتر گیا۔“ .52
پھر باپ نے جان لیا کہ اُسی وقت عیسیٰ نے اُسے بتایا تھا، ”تمہارا بیٹا زندہ رہے گا۔“ اور وہ اپنے پورے گھرانے سمیت اُس پر ایمان لایا۔ .53
یوں عیسیٰ نے اپنا دوسرا الٰہی نشان اُس وقت دکھایا جب وہ یہودیہ سے گلیل میں آیا تھا۔ .54

  John 4/21