Acts 25/28   

قیصریہ پہنچنے کے تین دن بعد فیستس یروشلم چلا گیا۔ .1
وہاں راہنما اماموں اور باقی یہودی راہنماؤں نے اُس کے سامنے پولس پر اپنے الزامات پیش کئے۔ اُنہوں نے بڑے زور سے .2
منت کی کہ وہ اُن کی رعایت کر کے پولس کو یروشلم منتقل کرے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ گھات میں بیٹھ کر راستے میں پولس کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ .3
لیکن فیستس نے جواب دیا، ”پولس کو قیصریہ میں رکھا گیا ہے اور مَیں خود وہاں جانے کو ہوں۔ .4
اگر اُس سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو آپ کے کچھ راہنما میرے ساتھ وہاں جا کر اُس پر الزام لگائیں۔“ .5
فیستس نے مزید آٹھ دس دن اُن کے ساتھ گزارے، پھر قیصریہ چلا گیا۔ اگلے دن وہ عدالت کرنے کے لئے بیٹھا اور پولس کو لانے کا حکم دیا۔ .6
جب پولس پہنچا تو یروشلم سے آئے ہوئے یہودی اُس کے ارد گرد کھڑے ہوئے اور اُس پر کئی سنجیدہ الزامات لگائے، لیکن وہ کوئی بھی بات ثابت نہ کر سکے۔ .7
پولس نے اپنا دفاع کر کے کہا، ”مجھ سے نہ یہودی شریعت، نہ بیت المُقدّس اور نہ شہنشاہ کے خلاف جرم سرزد ہوا ہے۔“ .8
لیکن فیستس یہودیوں کے ساتھ رعایت برتنا چاہتا تھا، اِس لئے اُس نے پوچھا، ”کیا آپ یروشلم جا کر وہاں کی عدالت میں میرے سامنے پیش کئے جانے کے لئے تیار ہیں؟“ .9
پولس نے جواب دیا، ”مَیں شہنشاہ کی رومی عدالت میں کھڑا ہوں اور لازم ہے کہ یہیں میرا فیصلہ کیا جائے۔ آپ بھی اِس سے خوب واقف ہیں کہ مَیں نے یہودیوں سے کوئی ناانصافی نہیں کی۔ .10
اگر مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد ہوا ہو جو سزائے موت کے لائق ہو تو مَیں مرنے سے انکار نہیں کروں گا۔ لیکن اگر بے قصور ہوں تو کسی کو بھی مجھے اِن آدمیوں کے حوالے کرنے کا حق نہیں ہے۔ مَیں شہنشاہ سے اپیل کرتا ہوں!“ .11
یہ سن کر فیستس نے اپنی کونسل سے مشورہ کر کے کہا، ”آپ نے شہنشاہ سے اپیل کی ہے، اِس لئے آپ شہنشاہ ہی کے پاس جائیں گے۔“ .12
کچھ دن گزر گئے تو اگرپا بادشاہ اپنی بہن برنیکے کے ساتھ فیستس سے ملنے آیا۔ .13
وہ کئی دن وہاں ٹھہرے رہے۔ اِتنے میں فیستس نے پولس کے معاملے پر بادشاہ کے ساتھ بات کی۔ اُس نے کہا، ”یہاں ایک قیدی ہے جسے فیلکس چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ .14
جب مَیں یروشلم گیا تو راہنما اماموں اور یہودی بزرگوں نے اُس پر الزامات لگا کر اُسے مجرم قرار دینے کا تقاضا کیا۔ .15
مَیں نے اُنہیں جواب دیا، ’رومی قانون کسی کو عدالت میں پیش کئے بغیر مجرم قرار نہیں دیتا۔ لازم ہے کہ اُسے پہلے الزام لگانے والوں کا سامنا کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ اپنا دفاع کر سکے۔‘ .16
جب اُس پر الزام لگانے والے یہاں پہنچے تو مَیں نے تاخیر نہ کی۔ مَیں نے اگلے ہی دن عدالت منعقد کر کے پولس کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ .17
لیکن جب اُس کے مخالف الزام لگانے کے لئے کھڑے ہوئے تو وہ ایسے جرم نہیں تھے جن کی توقع مَیں کر رہا تھا۔ .18
اُن کا اُس کے ساتھ کوئی اَور جھگڑا تھا جو اُن کے اپنے مذہب اور ایک مُردہ آدمی بنام عیسیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس عیسیٰ کے بارے میں پولس دعویٰ کرتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ .19
مَیں اُلجھن میں پڑ گیا کیونکہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کس طرح اِس معاملے کا صحیح جائزہ لوں۔ چنانچہ مَیں نے پوچھا، ’کیا آپ یروشلم جا کر وہاں عدالت میں پیش کئے جانے کے لئے تیار ہیں؟‘ .20
لیکن پولس نے اپیل کی، ’شہنشاہ ہی میرا فیصلہ کرے۔‘ پھر مَیں نے حکم دیا کہ اُسے اُس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک اُسے شہنشاہ کے پاس بھیجنے کا انتظام نہ کروا سکوں۔“ .21
اگرپا نے فیستس سے کہا، ”مَیں بھی اُس شخص کو سننا چاہتا ہوں۔“ اُس نے جواب دیا، ”کل ہی آپ اُس کو سن لیں گے۔“ .22
اگلے دن اگرپا اور برنیکے بڑی دھوم دھام کے ساتھ آئے اور بڑے فوجی افسروں اور شہر کے نامور آدمیوں کے ساتھ دیوانِ عام میں داخل ہوئے۔ فیستس کے حکم پر پولس کو اندر لایا گیا۔ .23
فیستس نے کہا، ”اگرپا بادشاہ اور تمام خواتین و حضرات! آپ یہاں ایک آدمی کو دیکھتے ہیں جس کے بارے میں تمام یہودی خواہ وہ یروشلم کے رہنے والے ہوں، خواہ یہاں کے، شور مچا کر سزائے موت کا تقاضا کر رہے ہیں۔ .24
میری دانست میں تو اِس نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو سزائے موت کے لائق ہو۔ لیکن اِس نے شہنشاہ سے اپیل کی ہے، اِس لئے مَیں نے اِسے روم بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ .25
لیکن مَیں شہنشاہ کو کیا لکھ دوں؟ کیونکہ اِس پر کوئی صاف الزام نہیں لگایا گیا۔ اِس لئے مَیں اِسے آپ سب کے سامنے لایا ہوں، خاص کر اگرپا بادشاہ آپ کے سامنے، تاکہ آپ اِس کی تفتیش کریں اور مَیں کچھ لکھ سکوں۔ .26
کیونکہ مجھے بےتُکی سی بات لگ رہی ہے کہ ہم ایک قیدی کو روم بھیجیں جس پر اب تک صاف الزامات نہیں لگائے گئے ہیں۔“ .27

  Acts 25/28