Acts 2/28   

پھر عیدِ پنتکُست کا دن آیا۔ سب ایک جگہ جمع تھے .1
کہ اچانک آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے شدید آندھی چل رہی ہو۔ پورا مکان جس میں وہ بیٹھے تھے اِس آواز سے گونج اُٹھا۔ .2
اور اُنہیں شعلے کی لَوئیں جیسی نظر آئیں جو الگ الگ ہو کر اُن میں سے ہر ایک پر اُتر کر ٹھہر گئیں۔ .3
سب روح القدس سے بھر گئے اور مختلف غیرملکی زبانوں میں بولنے لگے، ہر ایک اُس زبان میں جو بولنے کی روح القدس نے اُسے توفیق دی۔ .4
اُس وقت یروشلم میں ایسے خدا ترس یہودی ٹھہرے ہوئے تھے جو آسمان تلے کی ہر قوم میں سے تھے۔ .5
جب یہ آواز سنائی دی تو ایک بڑا ہجوم جمع ہوا۔ سب گھبرا گئے کیونکہ ہر ایک نے ایمان داروں کو اپنی مادری زبان میں بولتے سنا۔ .6
سخت حیرت زدہ ہو کر وہ کہنے لگے، ”کیا یہ سب گلیل کے رہنے والے نہیں ہیں؟ .7
تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اُنہیں اپنی مادری زبان میں باتیں کرتے سن رہا ہے .8
جبکہ ہمارے ممالک یہ ہیں: پارتھیا، مادیا، عیلام، مسوپتامیہ، یہودیہ، کپدکیہ، پنطس، آسیہ، .9
فروگیہ، پمفیلیہ، مصر اور لبیا کا وہ علاقہ جو کرین کے ارد گرد ہے۔ روم سے بھی لوگ موجود ہیں۔ .10
یہاں یہودی بھی ہیں اور غیریہودی نومرید بھی، کریتے کے لوگ اور عرب کے باشندے بھی۔ اور اب ہم سب کے سب اِن کو اپنی اپنی زبان میں اللہ کے عظیم کاموں کا ذکر کرتے سن رہے ہیں۔“ .11
سب دنگ رہ گئے۔ اُلجھن میں پڑ کر وہ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے، ”اِس کا کیا مطلب ہے؟“ .12
لیکن کچھ لوگ اُن کا مذاق اُڑا کر کہنے لگے، ”یہ بس نئی مَے پی کر نشے میں دُھت ہو گئے ہیں۔“ .13
پھر پطرس باقی گیارہ رسولوں سمیت کھڑا ہو کر اونچی آواز سے اُن سے مخاطب ہوا، ”سنیں، یہودی بھائیو اور یروشلم کے تمام رہنے والو! جان لیں اور غور سے میری بات سن لیں! .14
آپ کا خیال ہے کہ یہ لوگ نشے میں ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ دیکھیں، ابھی توصبح کے نو بجے کا وقت ہے۔ .15
اب وہ کچھ ہو رہا ہے جس کی پیش گوئی یوئیل نبی نے کی تھی، .16
’اللہ فرماتا ہے کہ آخری دنوں میں مَیں اپنے روح کو تمام انسانوں پر اُنڈیل دوں گا۔ تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوّت کریں گے، تمہارے نوجوان رویائیں اور تمہارے بزرگ خواب دیکھیں گے۔ .17
اُن دنوں میں مَیں اپنے روح کو اپنے خادموں اور خادماؤں پر بھی اُنڈیل دوں گا، اور وہ نبوّت کریں گے۔ .18
مَیں اوپر آسمان پر معجزے دکھاؤں گا اور نیچے زمین پر الٰہی نشان ظاہر کروں گا، خون، آگ اور دھوئیں کے بادل۔ .19
سورج تاریک ہو جائے گا، چاند کا رنگ خون سا ہو جائے گا، اور پھر رب کا عظیم اور جلالی دن آئے گا۔ .20
اُس وقت جو بھی رب کا نام لے گا نجات پائے گا۔‘ .21
اسرائیل کے مردو، میری بات سنیں! اللہ نے آپ کے سامنے ہی عیسیٰ ناصری کی تصدیق کی، کیونکہ اُس نے اُس کے وسیلے سے آپ کے درمیان عجوبے، معجزے اور الٰہی نشان دکھائے۔ آپ خود اِس بات سے واقف ہیں۔ .22
لیکن اللہ کو پہلے ہی علم تھا کہ کیا ہونا ہے، کیونکہ اُس نے خود اپنی مرضی سے مقرر کیا تھا کہ عیسیٰ کو دشمن کے حوالے کر دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے بےدین لوگوں کے ذریعے اُسے صلیب پر چڑھوا کر قتل کیا۔ .23
لیکن اللہ نے اُسے موت کی اذیت ناک گرفت سے آزاد کر کے زندہ کر دیا، کیونکہ ممکن ہی نہیں تھا کہ موت اُسے اپنے قبضے میں رکھے۔ .24
چنانچہ داؤد نے اُس کے بارے میں کہا، ’رب ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے رہا۔ وہ میرے دہنے ہاتھ رہتا ہے تاکہ مَیں نہ ڈگمگاؤں۔ .25
اِس لئے میرا دل شادمان ہے، اور میری زبان خوشی کے نعرے لگاتی ہے۔ ہاں، میرا بدن پُراُمید زندگی گزارے گا۔ .26
کیونکہ تُو میری جان کو پاتال میں نہیں چھوڑے گا، اور نہ اپنے مُقدّس کو گلنے سڑنے کی نوبت تک پہنچنے دے گا۔ .27
تُو نے مجھے زندگی کی راہوں سے آگاہ کر دیا ہے، اور تُو اپنے حضور مجھے خوشی سے سرشار کرے گا۔‘ .28
میرے بھائیو، اگر اجازت ہو تو مَیں آپ کو دلیری سے اپنے بزرگ داؤد کے بارے میں کچھ بتاؤں۔ وہ تو فوت ہو کر دفنایا گیا اور اُس کی قبر آج تک ہمارے درمیان موجود ہے۔ .29
لیکن وہ نبی تھا اور جانتا تھا کہ اللہ نے قَسم کھا کر مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری اولاد میں سے ایک کو میرے تخت پر بٹھائے گا۔ .30
مذکورہ آیات میں داؤد مستقبل میں دیکھ کر مسیح کے جی اُٹھنے کا ذکر کر رہا ہے، یعنی کہ نہ اُسے پاتال میں چھوڑا گیا، نہ اُس کا بدن گلنے سڑنے کی نوبت تک پہنچا۔ .31
اللہ نے اِسی عیسیٰ کو زندہ کر دیا ہے اور ہم سب اِس کے گواہ ہیں۔ .32
اب اُسے سرفراز کر کے خدا کے دہنے ہاتھ بٹھایا گیا اور باپ کی طرف سے اُسے موعودہ روح القدس مل گیا ہے۔ اِسی کو اُس نے ہم پر اُنڈیل دیا، جس طرح آپ دیکھ اور سن رہے ہیں۔ .33
داؤد خود تو آسمان پر نہیں چڑھا، توبھی اُس نے فرمایا، ’رب نے میرے رب سے کہا، میرے دہنے ہاتھ بیٹھ .34
جب تک مَیں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی نہ بنا دوں۔‘ .35
چنانچہ پورا اسرائیل یقین جانے کہ جس عیسیٰ کو آپ نے مصلوب کیا ہے اُسے ہی اللہ نے خداوند اور مسیح بنا دیا ہے۔“ .36
پطرس کی یہ باتیں سن کر لوگوں کے دل چھد گئے۔ اُنہوں نے پطرس اور باقی رسولوں سے پوچھا، ”بھائیو، پھر ہم کیا کریں؟“ .37
پطرس نے جواب دیا، ”آپ میں سے ہر ایک توبہ کر کے عیسیٰ کے نام پر بپتسمہ لے تاکہ آپ کے گناہ معاف کر دیئے جائیں۔ پھر آپ کو روح القدس کی نعمت مل جائے گی۔ .38
کیونکہ یہ دینے کا وعدہ آپ سے اور آپ کے بچوں سے کیا گیا ہے، بلکہ اُن سے بھی جو دُور کے ہیں، اُن سب سے جنہیں رب ہمارا خدا اپنے پاس بُلائے گا۔“ .39
پطرس نے مزید بہت سی باتوں سے اُنہیں نصیحت کی اور سمجھایا کہ ”اِس ٹیڑھی نسل سے نکل کر نجات پائیں۔“ .40
جنہوں نے پطرس کی بات قبول کی اُن کا بپتسمہ ہوا۔ یوں اُس دن جماعت میں تقریباً 3,000 افراد کا اضافہ ہوا۔ .41
یہ ایمان دار رسولوں سے تعلیم پانے، رفاقت رکھنے اور رفاقتی کھانوں اور دعاؤں میں شریک ہوتے رہے۔ .42
سب پر خوف چھا گیا اور رسولوں کی طرف سے بہت سے معجزے اور الٰہی نشان دکھائے گئے۔ .43
جو بھی ایمان لاتے تھے وہ ایک جگہ جمع ہوتے تھے۔ اُن کی ہر چیز مشترکہ ہوتی تھی۔ .44
اپنی ملکیت اور مال فروخت کر کے اُنہوں نے ہر ایک کو اُس کی ضرورت کے مطابق دیا۔ .45
روزانہ وہ یک دلی سے بیت المُقدّس میں جمع ہوتے رہے۔ ساتھ ساتھ وہ مسیح کی یاد میں اپنے گھروں میں روٹی توڑتے، بڑی خوشی اور سادگی سے رفاقتی کھانا کھاتے .46
اور اللہ کی تمجید کرتے رہے۔ اُس وقت وہ تمام لوگوں کے منظورِ نظر تھے۔ اور خداوند روز بہ روز جماعت میں نجات یافتہ لوگوں کا اضافہ کرتا رہا۔ .47

  Acts 2/28