← 1Kings 2/22 → |
جب داؤد کو محسوس ہوا کہ کوچ کر جانے کا وقت قریب ہے تو اُس نے اپنے بیٹے سلیمان کو ہدایت کی، | .1 |
”اب مَیں وہاں جا رہا ہوں جہاں دنیا کے ہر شخص کو جانا ہوتا ہے۔ چنانچہ مضبوط ہوں اور مردانگی دکھائیں۔ | .2 |
جو کچھ رب آپ کا خدا آپ سے چاہتا ہے وہ کریں اور اُس کی راہوں پر چلتے رہیں۔ اللہ کی شریعت میں درج ہر حکم اور ہدایت پر پورے طور پر عمل کریں۔ پھر جو کچھ بھی کریں گے اور جہاں بھی جائیں گے آپ کو کامیابی نصیب ہو گی۔ | .3 |
پھر رب میرے ساتھ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ کیونکہ اُس نے فرمایا ہے، ’اگر تیری اولاد اپنے چال چلن پر دھیان دے کر پورے دل و جان سے میری وفادار رہے تو اسرائیل پر اُس کی حکومت ہمیشہ تک قائم رہے گی۔‘ | .4 |
دو ایک اَور باتیں بھی ہیں۔ آپ کو خوب معلوم ہے کہ یوآب بن ضرویاہ نے میرے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے۔ اسرائیل کے دو کمانڈروں ابنیر بن نیر اور عماسا بن یتر کو اُس نے قتل کیا۔ جب جنگ نہیں تھی اُس نے جنگ کا خون بہا کر اپنی پیٹی اور جوتوں کو بےقصور خون سے آلودہ کر لیا ہے۔ | .5 |
اُس کے ساتھ وہ کچھ کریں جو آپ کو مناسب لگے۔ یوآب بوڑھا تو ہے، لیکن دھیان دیں کہ وہ طبعی موت نہ مرے۔ | .6 |
تاہم برزلی جِلعادی کے بیٹوں پر مہربانی کریں۔ وہ آپ کی میز کے مستقل مہمان رہیں، کیونکہ اُنہوں نے میرے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جب مَیں نے آپ کے بھائی ابی سلوم کی وجہ سے یروشلم سے ہجرت کی۔ | .7 |
بحوریم کے بن یمینی سِمعی بن جیرا پر بھی دھیان دیں۔ جس دن مَیں ہجرت کرتے ہوئے محنائم سے گزر رہا تھا تو اُس نے مجھ پر لعنتیں بھیجیں۔ لیکن میری واپسی پر وہ دریائے یردن پر مجھ سے ملنے آیا اور مَیں نے رب کی قَسم کھا کر اُس سے وعدہ کیا کہ اُسے موت کے گھاٹ نہیں اُتاروں گا۔ | .8 |
لیکن آپ اُس کا جرم نظرانداز نہ کریں بلکہ اُس کی مناسب سزا دیں۔ آپ دانش مند ہیں، اِس لئے آپ ضرور سزا دینے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ وہ بوڑھا تو ہے، لیکن دھیان دیں کہ وہ طبعی موت نہ مرے۔“ | .9 |
پھر داؤد مر کر اپنے باپ دادا سے جا ملا۔ اُسے یروشلم کے اُس حصے میں دفن کیا گیا جو ’داؤد کا شہر‘ کہلاتا ہے۔ | .10 |
وہ کُل 40 سال تک اسرائیل کا بادشاہ رہا، سات سال حبرون میں اور 33 سال یروشلم میں۔ | .11 |
سلیمان اپنے باپ داؤد کے بعد تخت نشین ہوا۔ اُس کی حکومت مضبوطی سے قائم ہوئی۔ | .12 |
ایک دن داؤد کی بیوی حجیت کا بیٹا ادونیاہ سلیمان کی ماں بُت سبع کے پاس آیا۔ بُت سبع نے پوچھا، ”کیا آپ امن پسند ارادہ رکھ کر آئے ہیں؟“ ادونیاہ بولا، ”جی، | .13 |
بلکہ میری آپ سے گزارش ہے۔“ بُت سبع نے جواب دیا، ”تو پھر بتائیں!“ | .14 |
ادونیاہ نے کہا، ”آپ تو جانتی ہیں کہ اصل میں بادشاہ بننے کا حق میرا تھا۔ اور یہ تمام اسرائیل کی توقع بھی تھی۔ لیکن اب تو حالات بدل گئے ہیں۔ میرا بھائی بادشاہ بن گیا ہے، کیونکہ یہی رب کی مرضی تھی۔ | .15 |
اب میری آپ سے درخواست ہے۔ اِس سے انکار نہ کریں۔“ بُت سبع بولی، ”بتائیں۔“ | .16 |
ادونیاہ نے کہا، ”مَیں ابی شاگ شونیمی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ براہِ کرم سلیمان بادشاہ کے سامنے میری سفارش کریں تاکہ بات بن جائے۔ اگر آپ بات کریں تو وہ انکار نہیں کرے گا۔“ | .17 |
بُت سبع راضی ہوئی، ”چلیں، ٹھیک ہے۔ مَیں آپ کا یہ معاملہ بادشاہ کو پیش کروں گی۔“ | .18 |
چنانچہ بُت سبع سلیمان بادشاہ کے پاس گئی تاکہ اُسے ادونیاہ کا معاملہ پیش کرے۔ جب دربار میں پہنچی تو بادشاہ کھڑے ہو کر اُس سے ملنے آیا اور اُس کے سامنے جھک گیا۔ پھر وہ دوبارہ تخت پر بیٹھ گیا اور حکم دیا کہ ماں کے لئے بھی تخت رکھا جائے۔ بادشاہ کے دہنے ہاتھ بیٹھ کر | .19 |
اُس نے اپنا معاملہ پیش کیا، ”میری آپ سے ایک چھوٹی سی گزارش ہے۔ اِس سے انکار نہ کریں۔“ بادشاہ نے جواب دیا، ”امی، بتائیں اپنی بات، مَیں انکار نہیں کروں گا۔“ | .20 |
بُت سبع بولی، ”اپنے بھائی ادونیاہ کو ابی شاگ شونیمی سے شادی کرنے دیں۔“ | .21 |
یہ سن کر سلیمان بھڑک اُٹھا، ”ادونیاہ کی ابی شاگ سے شادی!! یہ کیسی بات ہے جو آپ پیش کر رہی ہیں؟ اگر آپ یہ چاہتی ہیں تو کیوں نہ براہِ راست تقاضا کریں کہ ادونیاہ میری جگہ تخت پر بیٹھ جائے۔ آخر وہ میرا بڑا بھائی ہے، اور ابیاتر امام اور یوآب بن ضرویاہ بھی اُس کا ساتھ دے رہے ہیں۔“ | .22 |
پھر سلیمان بادشاہ نے رب کی قَسم کھا کر کہا، ”اِس درخواست سے ادونیاہ نے اپنی موت پر مُہر لگائی ہے۔ اللہ مجھے سخت سزا دے اگر مَیں اُسے موت کے گھاٹ نہ اُتاروں۔ | .23 |
رب کی قَسم جس نے میری تصدیق کر کے مجھے میرے باپ داؤد کے تخت پر بٹھا دیا اور اپنے وعدے کے مطابق میرے لئے گھر تعمیر کیا ہے، ادونیاہ کو آج ہی مرنا ہے!“ | .24 |
پھر سلیمان بادشاہ نے بِنایاہ بن یہویدع کو حکم دیا کہ وہ ادونیاہ کو موت کے گھاٹ اُتار دے۔ چنانچہ وہ نکلا اور اُسے مار ڈالا۔ | .25 |
ابیاتر امام سے بادشاہ نے کہا، ”اب یہاں سے چلے جائیں۔ عنتوت میں اپنے گھر میں رہیں اور وہاں اپنی زمینیں سنبھالیں۔ گو آپ سزائے موت کے لائق ہیں توبھی مَیں اِس وقت آپ کو نہیں مار دوں گا، کیونکہ آپ میرے باپ داؤد کے سامنے رب قادرِ مطلق کے عہد کا صندوق اُٹھائے ہر جگہ اُن کے ساتھ گئے۔ آپ میرے باپ کے تمام تکلیف دہ اور مشکل ترین لمحات میں شریک رہے ہیں۔“ | .26 |
یہ کہہ کر سلیمان نے ابیاتر کا رب کے حضور امام کی خدمت سرانجام دینے کا حق منسوخ کر دیا۔ یوں رب کی وہ پیش گوئی پوری ہوئی جو اُس نے سَیلا میں عیلی کے گھرانے کے بارے میں کی تھی۔ | .27 |
یوآب کو جلد ہی پتا چلا کہ ادونیاہ اور ابیاتر سے کیا کچھ ہوا ہے۔ وہ ابی سلوم کی سازشوں میں تو شریک نہیں ہوا تھا لیکن بعد میں ادونیاہ کا ساتھی بن گیا تھا۔ اِس لئے اب وہ بھاگ کر رب کے مُقدّس خیمے میں داخل ہوا اور قربان گاہ کے سینگوں کو پکڑ لیا۔ | .28 |
سلیمان بادشاہ کو اطلاع دی گئی، ”یوآب بھاگ کر رب کے مُقدّس خیمے میں گیا ہے۔ اب وہ وہاں قربان گاہ کے پاس کھڑا ہے۔“ یہ سن کر سلیمان نے بِنایاہ بن یہویدع کو حکم دیا، ”جاؤ، یوآب کو مار دو!“ | .29 |
بِنایاہ رب کے خیمے میں جا کر یوآب سے مخاطب ہوا، ”بادشاہ فرماتا ہے کہ خیمے سے نکل آؤ!“ لیکن یوآب نے جواب دیا، ”نہیں، اگر مرنا ہے تو یہیں مروں گا۔“ بِنایاہ بادشاہ کے پاس واپس آیا اور اُسے یوآب کا جواب سنایا۔ | .30 |
تب بادشاہ نے حکم دیا، ”چلو، اُس کی مرضی! اُسے وہیں مار کر دفن کر دو تاکہ مَیں اور میرے باپ کا گھرانا اُن قتلوں کے جواب دہ نہ ٹھہریں جو اُس نے بلاوجہ کئے ہیں۔ | .31 |
رب اُسے اُن دو آدمیوں کے قتل کی سزا دے جو اُس سے کہیں زیادہ شریف اور اچھے تھے یعنی اسرائیلی فوج کا کمانڈر ابنیر بن نیر اور یہوداہ کی فوج کا کمانڈر عماسا بن یتر۔ یوآب نے دونوں کو تلوار سے مار ڈالا، حالانکہ میرے باپ کو اِس کا علم نہیں تھا۔ | .32 |
یوآب اور اُس کی اولاد ہمیشہ تک اِن قتلوں کے قصوروار ٹھہریں۔ لیکن رب داؤد، اُس کی اولاد، گھرانے اور تخت کو ہمیشہ تک سلامتی عطا کرے۔“ | .33 |
تب بِنایاہ نے مُقدّس خیمے میں جا کر یوآب کو مار دیا۔ اُسے یہوداہ کے بیابان میں اُس کی اپنی زمین میں دفنا دیا گیا۔ | .34 |
یوآب کی جگہ بادشاہ نے بِنایاہ بن یہویدع کو فوج کا کمانڈر بنا دیا۔ ابیاتر کا عُہدہ اُس نے صدوق امام کو دے دیا۔ | .35 |
اِس کے بعد بادشاہ نے سِمعی کو بُلا کر اُسے حکم دیا، ”یہاں یروشلم میں اپنا گھر بنا کر رہنا۔ آئندہ آپ کو شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے، خواہ آپ کہیں بھی جانا چاہیں۔ | .36 |
یقین جانیں کہ جوں ہی آپ شہر کے دروازے سے نکل کر وادیِ قدرون کو پار کریں گے تو آپ کو مار دیا جائے گا۔ تب آپ خود اپنی موت کے ذمہ دار ٹھہریں گے۔“ | .37 |
سِمعی نے جواب دیا، ”ٹھیک ہے، جو کچھ میرے آقا نے فرمایا ہے مَیں کروں گا۔“ سِمعی دیر تک بادشاہ کے حکم کے مطابق یروشلم میں رہا۔ | .38 |
تین سال یوں ہی گزر گئے۔ لیکن ایک دن اُس کے دو غلام بھاگ گئے۔ چلتے چلتے وہ جات کے بادشاہ اَکیس بن معکہ کے پاس پہنچ گئے۔ کسی نے سِمعی کو اطلاع دی، ”آپ کے غلام جات میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔“ | .39 |
وہ فوراً اپنے گدھے پر زِین کس کر غلاموں کو ڈھونڈنے کے لئے جات میں اَکیس کے پاس چلا گیا۔ دونوں غلام اب تک وہیں تھے تو سِمعی اُنہیں پکڑ کر یروشلم واپس لے آیا۔ | .40 |
سلیمان کو خبر ملی کہ سِمعی جات جا کر لوٹ آیا ہے۔ | .41 |
تب اُس نے اُسے بُلا کر پوچھا، ”کیا مَیں نے آپ کو آگاہ کر کے نہیں کہا تھا کہ یقین جانیں کہ جوں ہی آپ یروشلم سے نکلیں گے آپ کو مار دیا جائے گا، خواہ آپ کہیں بھی جانا چاہیں۔ اور کیا آپ نے جواب میں رب کی قَسم کھا کر نہیں کہا تھا، ’ٹھیک ہے، مَیں ایسا ہی کروں گا؟‘ | .42 |
لیکن اب آپ نے اپنی قَسم توڑ کر میرے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ آپ نے کیوں کیا ہے؟“ | .43 |
پھر بادشاہ نے کہا، ”آپ خوب جانتے ہیں کہ آپ نے میرے باپ داؤد کے ساتھ کتنا بُرا سلوک کیا۔ اب رب آپ کو اِس کی سزا دے گا۔ | .44 |
لیکن سلیمان بادشاہ کو وہ برکت دیتا رہے گا، اور داؤد کا تخت رب کے حضور ابد تک قائم رہے گا۔“ | .45 |
پھر بادشاہ نے بِنایاہ بن یہویدع کو حکم دیا کہ وہ سِمعی کو مار دے۔ بِنایاہ نے اُسے باہر لے جا کر تلوار سے مار دیا۔ یوں سلیمان کی اسرائیل پر حکومت مضبوط ہو گئی۔ | .46 |
← 1Kings 2/22 → |